Ticker

6/recent/ticker-posts

بھارت کی جنگ آزادی میں علماء کا کردار


قارئین کرام : 15 اگست کی آمد آمد ہے ، 15 اگست کا دن وہ تاریخ ساز دن ہے کہ جس دن ہمارا ملک عزیز انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا

اور تمام اہل ہند کو ہر طرح کی آزادی میسر ہوئی ۔ اسی کی خوشی وشادمانی میں ہر سال جشن آزادی اور یوم آزادی پورے ملک میں پورے جوش وخروش اور بڑی آب وتاب کے ساتھ دھوم دھام سے منایا جاتا ہے،

ساتھ ہی ساتھ ان مجاہدین آزادی کو خراج تحسین پیش کیا جاتاہے،ان کی قربانیوں کو یادکیاجاتاہے ، جن کی جہد مسلسل سعی پیہم اور لازوال قربانیوں کے طفیل میں یہ دیش آزاد ہوا تھا ، لیکن بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہاہے کہ اس موقع پر بھی کچھ لوگ تعصب کا چشمہ لگاکر فرقہ پرستی اور تنگ نظری کا ثبوت دیتے ہوۓ صرف چند مخصوص افراد کو یاد کرتے ہیں قوم کو صرف ایک ہی طبقہ کے افراد کی قربانیوں اور کاوشوں سے واقف کرایا جاتا ہے،

لہذا ہمارا بھی فرض بنتاہے کہ اپنے اسلاف اور بزرگوں کی قربانیوں اور کاوشوں سے اپنے اور بیگانوں کو واقف کرایا جاۓ

15 اگست اور 26 جنوری کے موقعوں پر عوام الناس کے سامنے ان کی تاریخ  ،جہد، کاوش اور قربانیوں کو بیان کیا جاۓ اور یہ باور کرایاجاۓ کہ آج جو ہم آزادی کے ساتھ سانس لے رہے ہیں یہ سب ہمارے علماء کرام اسلاف اور بزرگوں مدارس اور اہل مدارس  کی قربانیوں کی دین ہے، لیکن ہاۓ افسوس آج یہی مدارس اسلامیہ ایسے لوگوں کی نظر میں کھٹک رہے ہیں جن کا جنگ آزادی میں کوئی رول نہیں ہے۔

قارئین عظام تاریخ کا وہ وقت یاد کیجیے کہ جب ہندوستان کی سرزمین پر انگریزوں کا ناپاک سایہ پڑا، اور وہ اپنی ریشہ دوانیوں ، سازشوں ،عیاریوں ،اور مکاریوں سے یہاں کے مالک بن بیٹھے ،

جب باشندگان ہند پر پر طرح طرح کے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جانے لگے ،

جب ہندوستانیوں کو غلام بنایاجانے لگا ،جب اہل ہند کاخون ان کے پسینوں سے بھی ارزاں ہونے لگا تو ایسے نازک ترین وقت میں شاہ عبدالعزیز ؒ محدث دہلوی نے ایک فتوی دیا وہ فتوی کیا تھا گویا کہ ایک برق بے اماں تھا ،

جو دشمنوں کے نخل تمنا پر گرپڑی ، انگریزوں کی نیند حرام ہوگیی ، جگہ جگہ آزادی کے شعلے بھڑکنے لگے اور حوصلوں نے انگڑائیاں لینی شروع کردی ،

مسند درس پر بیٹھ کر قرآن وحدیث کا درس دینے والے علماء کرام خانقاہوں میں بیٹھ کر اپنے خون جگر سے شمع اسلام کو روشن کرنے والے مشائخ عظام اپنے مدرسوں اور خانقاہوں کو چھوڑ کر میدان میں آگیے اور فرنگیوں کے خلاف محاذ بناکر منزل کی جانب بے سروسامانی کے عالم میں نکل پڑے اور 

میں اکیلا ہی چلاتھاجانب منزل مگر

لوگ آتے گیے اور کاروں بنتاگیا،

کے مصداق بن گیے ،

یہ کارواں طویل مسافت طے کرتے ہوۓ کس طرح منزل مقصود تک پہنچا یہ ایک طویل داستان ہے ،اس داستان میں امنگیں بھی ہیں اور محرومیاں بھی ،عزوم وعمل کا جوش وخروش بھی ، اور شکست خوردگی اور بے چارگی کی افسردگی بھی ، جنون شوق کی آشفتہ سری بھی اور گردش دوراں کی کجروی بھی ،

اس طویل مسافت کو طے کرتے ہوۓ ان کے پاؤں مسلسل لہو لہان ہوتے رہے ، کبھی جبروتشدد کی خاردار جھاڑیوں نے ان کے دامن کو تارتار کیا ،کبھی وحشت وبربریت کے پہاڑ ان کی راہ میں حائل ہوگیے۔

مگر اس بزم جنوں کے دیوانوں نے ہمت نہیں ہاری حادثات ومصائب سے ٹکراتے ہوۓ منزل مقصود کی طرف بڑھتے رہیں ۔

چنانچہ تاریخ ہند ہم سے کہتی ہے۔

اس بزم جنوں کے دیوانے 

ہر راہ سے پہنچے منزل تک

بے تابی ان کی عام ہوئی

صحراؤں سے لیکر ساحل تک

ہاں سنگ گراں پہ لکھتے تھے 

وہ اپنے دل ناداں کا حال

شاید کے تلاش مقتل میں 

کوئی پہنچے پتھرقاتل تک۔

ستم بالاۓ ستم اور المیہ یہ ہے کہ آج ہمارا نوجوان اور اسکول وکالجز میں پڑھے لکھے افراد بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ آزادی کی ابتداء سنہ 1857ء سے ہوئی تھی حالانکہ سنہ 1757ء کو بنگال میں نواب سراج الدولہ نے اور سری رنگا پٹنم میں سنہ 1799 ء میں شیر میسور ٹیپو سلطان انگریزوں سے ملک عزیز ہندوستان کی حفاظت اور اس کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے معرکہ آرائی کرتے ہو ۓ شہید ہوگیے تھے۔

یہ بات حقیقت برمبنی ہے کہ اگر ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمان اور علماء کرام حصہ نہ لیتے تو یہ ملک شاید آج تک آزاد نہ ہوا ہوتا۔

پھر ان دونوں کی شہادت کے بعد سنہ 1857 ء میں اسی جہد اور مشن کو آگے بڑھاتے ہوۓ اور آزادی ہند کے مقصد کے پیش نظر دو محاذ بناۓ گیے 

ایک محاذ انبالہ پر جس کی قیادت مولانا جعفر تھانیسری کررہے تھے تو دوسرا محاذ شاملی کے میدان پر جس کی قیادت حاجی امداداللہ مہاجرمکی ؒ کے پاس تھی ۔

سنہ 1857ء کی جنگ آزادی میں بڑے بڑے علما ء وصلحاء شہید ہوۓ ، اسی جنگ میں عالم اسلام کی عظیم دینی درسگاہ ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے بانی حجۃ اللہ فی الارض  مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ زخمی ہوۓ ،اسی جنگ میں  دارالعلوم دیوبند کے سرپرست اعلی مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ زخمی ہوۓ ، اسی جنگ میں حافظ ضامن شہید ہوۓ ۔

اسی طرح دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم اور مایہ ناز عالم تحریک ریشمی رومال کے بانی شیخ الہند مولانا محمودالحسن دیوبندی ؒ اسیر مالٹا نے مالٹا میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

 سنہ 1857ء کی جنگ آزادی میں 2 لاکھ مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں 51 ہزار علماء کرام تھے ۔

مؤرخین کہتے ہیں کہ صرف دہلی میں 500 علماء کو پھانسی کے پھندہ پر لٹکا دیا گیا ۔

اور آگے بڑھیے اور دیکھیے ایک انگریز مؤرخ مسٹر ٹامسن کہتا ہے کہ دہلی کے چاندی چوک سے لےکر خیبر تک کوئی درخت ایسا نہ تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوئی ہوں ۔

علماء کے جسموں کو تانبے سے داغا گیا ، علماء کو سوروں کی کھالوں میں بند کرکے جلتے ہوۓ تنوروں میں ڈالاگیا ،علماء کو ہاتھیوں پر کھڑاکرکے نیچے سے ہاتھیوں کو چلا دیا گیا ،

لاہور کی شاہی جامع مسجد میں انگریز نے پھانسی کا  پھندا بنایا تھا اس میں ایک ایک دن میں 80 /80 علماء کو پھانسی دی جاتی تھی، لاہور کے دریا راوی میں 80/80 علماء کو بوریوں میں بند کرکے ڈال دیا جاتا اور اوپر سے گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا۔

ٹامسن کہتا ہےکہ ایک بار جب میں دلی اپنے خیمہ میں گیا تو مجھے مردار کی بدبو محسوس ہوئی تو میں خیمہ کے پیچھے چلاگیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں آگ کے انگارے دہک رہے ہیں اور 40 علماء کو کپڑے اتار کر ان انگاروں پر ڈال دیا گیا ، میرے دیکھتے ہی دیکھتے 40 علماء کو اور بلایاگیا ان کے کپڑے اتار کر انگریزنے کہا مولویوں جس طرح ان کو پکایاگیا ہے اسی طرح تمہیں بھی پکا دیا جائیگا تم میں سے صرف ایک آدمی یہ کہدو کہ سنہ 1857ء کی جنگ آزادی میں ہم  شریک نہیں تھے ابھی چھوڑ دینگے ۔

ٹامسن کہتا ہے کہ مجھے پیدا کرنے والے کی قسم کوئی عالم ان میں ایسا نہیں تھا جس نے انکار کیا ہو سارے کے سارے آگ میں پک گیے مگر انگریز کے سامنے  کسی نےگردن نہیں جھکائی اور سب نے اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کردیں اور یہ کہہ دیا۔  

اپنی آزادی کو ہم ہرگز گنواں سکتے نہیں ،

سر کٹاسکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے نہیں۔

اسی سلسلہ کی ایک عظیم کڑی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ ہیں جن کے خلاف انگریز نے قتل کے وارنٹ جاری کردیے تھے کہ آپ کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم تھا مگر آپ کے حوصلہ اور ہمت کو داد دینی پڑیگی کہ کراچی کی کانفرنس ہے لوگوں کا جم غفیر ہے ، مولانا مدنی ؒ کو کانفرنس میں آنا تھا لیکن کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ حسین احمد مدنی ؒ نہیں آئینگے 

مگر لوگوں کی آنکھیں اس وقت پھٹی کی پھٹی رہ گیی جب وہ مرد مجاہد کفن بردوش ہوکر اسٹیج پر آئے اور آتے ہی مائک پر کھڑے ہوکر انگریز کو بلبل اور اس کی گولیوں کو گل سے تشبیہ دیتے ہوۓ فرمایا۔

لیے پھرتی ہے بلبل چونچ میں گل 

شہید ناز کی تربت کہاں ہے۔

راوی کہتا ہے کہ جب حضرت نے یہ شعر پڑھا تو لوگ جوش میں آدھے گھنٹہ تک نعرے لگاتے رہے

اور پھر علماء کی قربانیوں اورکا وشوں کا ذکرکرتے ہوۓ اپنے ایک اہم  اور غیر معمولی  فتوی کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ انگریزکو مخاطب کرکے فرمایا۔

کھلونا سمجھ کرنہ برباد کرنا

کہ ہم بھی کسی کے بناۓ ہوۓہیں

فرنگی کی فوجوں میں حرمت کے فتوے

سردارچڑھ کر بھی گاۓ ہوۓ ہیں۔

القصہ مختصر اگر وطن عزیز ہندوستان  کی جنگ آزادی میں مسلمان اور خصوصا علماء کرام حصہ نہ لیتے تویہ ہندوستان کبھی بھی آزاد نہ ہوتا ۔

ان برگزیدہ ہستیوں نے ایسی بے مثال قربانیاں دی جن کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے

اس لیے ہمیں ان مجاہدین کی یادوں کو زندہ رکھنا ہوگا ، ان کی بے مثال اور لازوال قربانیوں سے اپنوں اور بیگانوں کو روشناس کرانا ہوگا مدارس اسلامیہ اور اہل مدارس کی اہمیت وافادیت کو  اور وطن عزیز کے لیے ان کی قربانیوں اور کاوشوں کوزیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا ہوگا۔

خدا رحمت کند ایں پاک طینت را

باری تعالی عزاسمہ ان جیسا جزبہ اور حوصلہ ہمارے اندر بھی پیدا فرماۓ۔


مولانا سلیم احمد قاسمی بھنیڑہ ضلع بجنور یوپی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے