Ticker

6/recent/ticker-posts

روزے کی حکمتوں میں سے ایک یہ بھی

 رمضا ن المبارک کے روزے میں اس لحاظ سے بھی بہت سی حکمتیں پنہاں ہیں کہ یہ نفس امارہ کی تہذیب وتربیت کر تا ہے ، اس کے اخلاق واطوار کو سدھا رتا سنوارتا ہے اور اسے اس طرح کا بنا دیتا ہے کہ پھر وہ بے ہنگم اور اندھا دھند تصرفات سے دامن کشاں رہتا ہے۔ ان میں سے ہم صرف ایک حکمت کا تذکرہ کرتے ہیں:

   نفس ِانسانی غفلت کی وجہ سے اپنی ذات کوبھول جاتا ہے ، اور اپنی ماہیت میں پائی جانے والی غیر محدود عاجزی ، غیر متناہی فقر اور آخری درجے کی کو تاہیوں کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے، بلکہ اپنی ساخت میں پائی جانے والی آخری درجے کی پو شیدہ کوتاہیوں کو نہ تو دیکھتا ہے اور نہ دیکھنا ہی چاہتا ہے؛اس لیے وہ اس بارے میں کبھی غور ہی نہیں کرتا کہ اس کے اس ضعف وعجز کی انتہا کیا ہے اور کس طرح یہ تنز ّل اور زوال کا شکار اور مصائب و آلام کا ہد ف ہے! انسان یہ بھو ل جاتا ہے کہ اس کی بناوٹ گوشت اور ہڈیو ں سے ہو ئی ہے جو کہ تحلیل ہو جاتے ہیں اور جلد ہی خراب ہو جاتے ہیں،چنا نچہ وہ دنیا میں تصرف کر تا ہوا اس وہم میں مبتلا رہتا ہے کہ گو یا اس کا جسم فو لاد کا بنا ہوا ہے جو کہ موت اور زوال سے پاک ہے اور اس دنیا میں ہمیشہ رہے گا ۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ وہ دنیا پر دیوانہ وار گرتا ہے، اپنے آپ کو حرص وہوا اور طمع ولالچ سے مغلوب ہو کر اس کی گو د میں گرادیتا ہے، اس کے ساتھ محبت اور جذبات سے بھرے کھلے بندوں تعلقات رکھتا ہے، اور ہر لذیذ اور مفید چیز کو اپنی مٹھی میں بند کر لینا چاہتا ہے۔ اسی بنا پر وہ اپنے اُس خالق ومالک کو بھول جاتا ہے جو اسے کمال شفقت سے پر وان چڑھاتا ہے ۔چنا نچہ وہ اپنے انجام سے بے خبری اور اپنی اخروی زندگی سے لاعلمی کی حالت میں بداخلاقی کے گہر ے گڑھے میں جاگرتا ہے ۔ 

   لیکن رمضان کا روزہ غافل ترین اور سرکش ترین آدمی کو اس کی کمزوری ، عاجز ی ، اور محتاجگی کا شعور بخشتا ہے، بھوک کے وسیلے سے ہر آدمی اپنے اوراپنے خالی معدے کے بارے میں سوچتا ہے، اس حاجت کا ادراک کرتا ہے جو اس کے معدے میں پیدا ہو چکی ہے ، اور اس طر ح سے وہ اپنی عا جزی اور مسکینی کو نگا ہ کے سامنے رکھتا ہے۔ اور اپنے کمزور وجود کی بوسیدگی کو یاد کرتا ہے اور اس بات کا ادراک کر لیتا ہے کہ وہ رحمت اور شفقت کا بہت زیادہ محتاج ہے ۔ 

   اب دل کی گہرائیو ں میں پروردگا ر کی مغفرت کا دروازہ کھٹکھٹا نے کی آرزو پیدا ہوتی ہے، چنا نچہ وہ نفس کی فرعونیت کو ایک طرف جھٹک کرکا مل عاجزی اور انتہا ئی فقیر ی اور مسکینی کا اظہار کرتے ہو ئے معنوی شکر کے ہاتھوں کے سا تھ رحمت الہی کا دروازہ کھٹکھٹا نے کے لیے دیوانہ وار اٹھ کھڑ ا ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ غفلت نے اس کی بصیرت پر پردہ نہ ڈال دیا ہو ۔

 (رسائل نور سے ماخوذ (رمضان کا پیغام)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے