Ticker

6/recent/ticker-posts

آخری ملاقات و آخری دیدار، استاد الاساتذہ قاری و مقری حضرت احمداللہ صاحب بھاگلپوریؒ


 آخری ملاقات، آخری دیدار اور آخری الوداعی سفر 

از قلم: ابوسعد چارولیہ 

خادم جامعہ ڈابھیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا 

آنکھ حیراں ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

آخری ملاقات

تین دن پہلے بدھ کی دوپہر کو چار بجے کے قریب ہر دم متحرک و فعال دوست شیخ اویس گودھرا حفظہ اللہ کا ہمیشہ کی طرح اڑتا، بھاگتا، دوڑتا، تیرتا، ہنگامی میسج آیا کہ بڑے قاری صاحب کی عیادت کو سورت جانا ہے،  کسی ایک لمحے کا توقف کیے بغیر گیٹ پر آجاؤ، فوراً پہنچا، چار رفقائے تدریس جامعہ سے نکلے، سورت پہنچے، ہسپتال معلوم نہیں تھا، بوتل کے جن کی طرح حاضر رہنے والے:  عزیزم قاری حمزہ سلمہ کو ''اراءۃ الطریق'' کے لیے فون کیا اور وہ پانچ منٹ میں نہ صرف حاضر ہوگئے بلکہ اپنی زیر قیادت ''ایصال الی المطلوب'' کروادیا،  ہسپتال پہنچے تو وہاں ویٹنگ روم میں بھائی افتخار، صاحبزادے اَشّو اور خادم خاص قاری عبدالرحمن بھڑکودرہ کو موجود پایا، پتا چلا کہ آپریشن ہوچکا ہے، حضرت ہوش میں ہیں، بات کررہے ہیں، مگر انتظامیہ ایک ساتھ جانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے، ایک ایک کرکے جاؤ! ساتھیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو بھائی اَشّو نے آگے بڑھ کر مسئلہ حل کردیا اور دو دو ساتھیوں کو جانے کی اجازت مل گئی، پہلے قرعۂ فال گودھرا برادران اویس و عمران حفظہما کے نام نکلا، وہ ''فواق ناقۃ'' کی طرح جاکر آگئے تو راقم الحروف اور رفیقم مولوی شعیب زید فیضہ کو باریابی کی اجازت ملی، دو منزلے چڑھ کر کمرہ نمبر دو سو چھ کا دروازہ کھولا تو سامنے ہی صدی کے مجددِ تجوید کو مریضوں کے لباس میں لیٹا ہوا پایا،دل پر ایک نامعلوم سی چوٹ لگی، سلام کیا، مسنون دعا پڑھی، خیر خیریت پوچھی اور نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو کے حامل شفیق و مہرباں: قاری عبدالحیی ڈابھیلی زید مجدہ (استاد تجوید و قرات جامعہ کفلیتہ )نے بہ اصرار بٹھادیا، حکم پاتے ہی سرہانے چپ چاپ بیٹھ گئے اور یوں ہی تَکا کیے کہ اس نحیف و نزار مردِ درویش نے شاگردوں اور رجال کار کا اتنا بڑا قافلہ کیسے تیار کرلیا! ان ہی سوچوں میں گم صم بیٹھا تھا کہ دستِ راست و خادمِ خاص قاری اسحاق صاحب نے جو اس وقت خود پتھری کے درد سے جھوجھ رہے تھے،  اشارہ کیا کہ کچھ بولو تو بات ہوگی،ہمت کرکے بات یہاں سے شروع کی کہ:  حضرت! آج سے طلبۂ جامعہ کے تحریری امتحان کا آغاز ہوگیا ہے، اِدھر جملہ پورا ہوا اُدھر حضرت نے فوراً دعا فرمائی کہ اللہ تعالی تمام طلبہ کو امتحان میں کامیابی نصیب فرمائے، عرض کیا کہ:  حضرت! عنقریب انشاء اللہ آپ صحت یاب ہوکر جامعہ کے امتحان ہال میں تشریف لائیں گے اور طلبہ کی آنکھیں ٹھنڈی فرمائیں گے ، مفتی شعیب صاحب نے کہا کہ پھر آپ ہی کی موجودگی میں سالانہ جلسہ بھی ہوگا انشاء اللہ! حضرت نے کچھ کہا نہیں صرف مسکرائے، کیا پتا تھا کہ اب دوبارہ اس ہستی کو جامعہ کے احاطے میں دیکھ نہیں پائیں گے، بات تعلیم کی نکل آئی تو یکدم متفکر ہوگئے، ابتدائی درجات کی تعلیم میں مہارت اور عربیت میں پختگی کی ضرورت پر زور دیا اور ساتھ ہی ہمیں نصیحت فرمائی، چوں کہ حضرت کے پیروں کی رگ بلاک(مسدود) ہونے کی وجہ سے انگوٹھا سوکھ کر کالا ہوچکا تھا اور اسی کا یہ آپریشن تھا، اس لیے  راقم نے عرض کیا : حضرت!  دعا فرمائیں کہ ہم اساتذہ بلاک نہ ہوجائے، ہم بلاک ہوگئے تو نیچے طلبہ میں خون نہیں پہنچے گا، رگیں سوکھ جائیں گی، بہت خوش ہوئے، کھل کر ہنسے اور فرمایا: بالکل صحیح کہا،ہم تو اساتذہ سے کہتے ہیں کہ مکتب سے ہی عربی زبان سکھانا شروع کردو، جب بچے ساری زبانیں سیکھتے ہیں تو عربی کیوں نہیں سیکھیں گے! عرض کیا کہ:  حضرت! آپ کے شاگرد قاری حمزہ سورتی سلمہ نے اپنے مکاتب میں اس کی شروعات کردی ہے، خوش ہوکر فرمانے لگے کہ: جو ''بُدّھو'' ہوتے ہیں وہی کرتے ہیں، جو ''زیادہ سمجھ دار''ہوتے ہیں ان کے بھیجے میں بات نہیں گھستی! پھر سرد آہ بھر کر فرمانے لگے: دیکھو! ایک بات لے کر جاؤ! گاؤں گاؤں گھومو! اور مسلمانوں کو مکتب کے ذریعے قرآنِ پاک سے جوڑو، اس کے سوا عزت کا کوئی دوسرا راستہ نہیں، نوجوان فضلا کو اس جانب خصوصی طور پر متوجہ کرو،ان کی ذہن سازی کرو کہ مرتے دم تک قرآن کی خدمت میں لگے رہیں ۔

وقت بڑھتا جارہا تھا اور حضرت کی توجہات بھی، مگر ان کے آرام کا لحاظ کرکے با دلِ ناخواستہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اجازت طلب کرکے خوشی خوشی یہ سمجھ کر باہر آئے کہ عنقریب حضرت سے خوش گوار حالت میں صحت بخش ملاقات ہوگی مگر

بسا آرزو کہ خاک شدہ 

دوسرے دن قاری حمزہ سورتی سلمہ کا فون آیا کہ کل آپ لوگوں کے جانے کے بعد طہارت کے لیے حضرت اٹھے، خدام نے ہرچند تعاون کے لیے کہا، نہ مانے اور اسی دوران اٹھتے ہوئے گرگئے، ناک میں سے کثیر مقدار میں خون نکلا، آنا فانا خصوصی نگہداشت کے شعبے: '' آئی سی یو ''میں لے گئے اور علاج شروع ہوا، بسیار مشقت کے بعد خون بند ہوا،سانس پھول رہی تھی، آکسیجن لگایا گیا، چیکپ ہوا اور خدام نے اطمینان کا سانس لیا کہ کوئی بڑی چوٹ نہیں آئی، ڈاکٹر نے کہا کہ قدرے نمونیہ کا اثر ہے، باقی کچھ نہیں۔ مشورے سے جمعرات کو ڈابھیل گارڈی ہسپتال لے آئے کہ اب  طبیعت اچھی ہے، ایک بار پھر امید بندھی کہ لوجی! اب تو حضرت اتنے قریب آگئے ہیں ۔

پتا نہیں کیوں راقم نے عزیز حمزہ سلمہ سے حضرت کے آپریشن سے قبل ہی کہہ دیا تھا کہ: 

اس وقت بڑے قاری صاحب کی ہر ممکن خدمت ذخیرۂ آخرت و باعثِ برکت ہوگی، موقع ہرگز نہ چھوڑیں اور ماشاء اللہ وہ بھی سائے کی طرح لگے رہیں 

جمعہ کا دن پورا ہوتے ہوتے تو خبر آگئی کہ بڑے قاری صاحب کو اٹیک آیا ہے اور ہنگامی طور پر سورت لے جایا گیا ہے، دو چار کوگوں سے حال احوال معلوم کیے مگر کچھ صاف پتا نہ چل سکا، شش و پنج میں رات گذری اور صبح سویرے فون کی گھنٹی بجی، اسکرین پر حمزہ سلمہ کا نمبر جگمگا رہا تھا اور دل کسی اور خطرے کی گھنٹی بجارہا تھا، فون اٹھایا تو گبھرائی ہوئی آواز آئی کہ حضرت کی طبیعت ناساز ہے، آکسیجن کم ہوتا جارہا ہے، ہارڈ صرف پندرہ فیصد چل پارہا ہے، وینٹیلیٹر پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور حمزہ رو دیے ۔

فون رکھ کر دعا کا مسیسج لکھا اور درسگاہ پہنچا، جامعہ میں آج سے تقریری امتحان کا آغاز ہورہا تھا،مگر کیسے کسی کا امتحان لیتا کہ خود ایک ناگفتہ بہ امتحان سے گذر رہا تھا، طلبہ سے یاسین شریف کی تلاوت کے لیے کہہ دیا، دل کہہ رہا تھا کہ: بھیا! کھودی تم نے عظیم نعمت!  اور دماغ جھوٹی تسلیاں دے رہا تھا کہ ابھی بڑے قاری صاحب دلوں کی دھڑکن بن کر باقی رہیں گے، نظر کاغذات پر تھی، قلم بھی چل رہا تھا اور دل و دماغ میں طوفان بپا تھا، آنکھیں بہہ رہی تھیں، طلبہ متحیر تھے کہ آنسو کس بات پر! 

ادھر میسیج و فون سے عزیز حمزہ بتارہے تھے کہ ہم سب ایک ایک کرکے حضرت کے پاس سے ہوکر آئے ہیں، اب صرف حضرت کے قدیم شاگرد و عاشق قاری عبدالمنان صاحب سورتی زید عشقہ بیٹھے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ حضرت کو قرآن مجید سناؤں، وہ مسلسل قرآن پاک کی آیتیں مختلف روایتوں میں سنارہے ہیں اور حضرت آنکھیں بند کیے قرآن سنے جارہے ہیں، اللہ اکبر! یہ نصیب بھی نصیب والوں کو ملتا ہے اور دیکھو تو!  ان کو ملا ہے جن کا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا سب کچھ قرآن کے ساتھ تھا جو جیتے جاگتے چلتے پھرتے عاشقِ قرآن تھے، ابھی چار دن پہلے ہی کی تو بات ہے:  قاری حمزہ، قاری اسحاق صاحب اور قاری رضوان صاحب کو بلاکر حضرت نے فرمایا کہ:  دیکھو! میری ایک نصیحت یاد رکھنا! اپنی زندگی کا کوئی ایک گھنٹہ بھی ایسا نہ گذرنے دینا جو قرآن سننے یا پڑھنے سے خالی ہو ۔ اور اب ۔۔۔ اب ۔۔۔خود اس کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں، آنکھیں بند ہوئی جارہی ہیں، سانسیں اکھڑ رہی ہیں، آواز غائب ہے اور ایک شاگرد روتے ہوئے کلام پاک سنائے جارہا ہے ، 

آئی سی یو کے باہر اتنے میں اماں جان ویل چیر پر لائے گئے، اماں جان اندر گئے، نگاہوں نگاہوں میں باتیں،دھڑکنوں کی ملاقاتیں اور الوداعی دیدار کرکے ابھی تو اماں جان باہر نکلی کہ معا ڈاکٹر نے خبر دی : سوری! ہم نہیں بچا پائے ۔ اماں جان چیخیں، دہاڑیں مار مار کر روئیں،بھائی اَشّو بے قرار ہوگئے، فرحان تڑپ اٹھے اور قاری اسحاق و قاری عبدالرحمن صاحبان مچل گئے، حمزہ سلمہ کی ہچکیاں بندھ گئیں، ہر کوئی ایک دوسرے سے گلے مل کر تڑپا، حالاں کہ جانے والا ان میں سے سوائے ایک کے کسی کا سگا باپ نہ تھا،  ہائے!مگر کون بتائے کہ جانے والا ان کے نزدیک سگے باپ سے بڑھ کر تھا،  کچھ دیر تک کے لیے کسی کو ہوش نہ رہا، ہوش بجا ہوئے تو حمزہ سلمہ کا فون آیا جس میں ہچکیوں کے سوا کچھ نہ تھا، درسگاہ میں بیٹھے بیٹھے یکدم سے ہچکی بندھ گئی، باہر کو دوڑا تو قاری محمد رضوان صاحب کو آفس کے نیچے تنہا آنسو بہاتے پایا کہ آج سب کچھ لُٹ گیا، جسے کندھا ملا وہ گلے لگ کر رویا اور جسے کندھا نہیں ملا وہ کونوں گوشوں میں چھپ کر رویا 

کچھ اپنا درد ہی طارق نعیم ایسا تھا 

بغیر موسمِ گریہ بھی ہم غضب روئے 

 جس نے سنا دھک کرکے رہ گیا،ہسپتال کے کوریڈور میں کھڑے لُٹے پُٹے چند دیوانے دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں کے مجمع میں بدل گئے، ہسپتال کا عملہ حیران کہ کیا ہوا، ڈابھیل و کفلیتہ سے گاڑیاں مع ایمبولنس دوڑیں مگر آہ! جو جا چکا تھا وہ کب ہاتھ آنے والا تھا!  کاغذی کارروائیاں اللہ کے کرم اور حضرت کی برکت سے جلدی جلدی ہونے لگی، یہاں جامعہ میں طلبہ مسجد میں جمع ہوکر ایصال ثواب کر رہے ہیں اور استاد محترم مفتی ابوبکر صاحب مدظلہ کی دعا میں ہچکیوں، سسکیوں اور آنسووں کے سوا کچھ نہیں، مجمع میں کہرام بپا ہے،  اُدھر محمود نگر میں اساتذہ چشم براہ کھڑے ہیں،  بالاخر ایمبولنس آئی اور  بڑے قاری صاحب کی جگہ اب ان کی مبارک نعش لائی ۔

آخری دیدار 

دیدار کرنے والوں نے پہلے آنکھوں کو غسل دیا، پھر حضرت کو ایمبولنس سے اتارا، گھر لے جایا گیا، باہمی مشورے سے غسل و کفن کے مراحل طے ہوئے، ڈابھیل، کفلیتہ اور محمود نگر کے عشاق سے گھر بھرا پڑا تھا، غسل ہوگیا، تکفین کے لیے اس سچے خادم قرآن کو لایا گیا، جسم روشن،، چہرے پہ تازگی، مسکان ہونٹوں پر،ہر کوئی عطر و کافور ملنے کو بے چین، آواز آئی کہ بھائی! گھر خالی کرو مگر دیوانے ہیں کہ ہٹنے کا نام نہیں لے رہے ہیں، خدا خدا کرکے گھر خالی ہوا،  محرم مستورات کو تنہائی میں موقع دیا گیا، اور تقریبا ظہر کے بعد محمود نگر حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم کے مہمان خانے میں زیارتِ خاص کے واسطے رکھا گیا، حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم کا غم زدہ چہرہ ذہن کی اسکرین پر نمودار ہوا کہ ان کے زمانۂ تدریس کا یہی ایک رفیق بچا تھا وہ بھی چل بسا، مہتمم صاحب مدظلہ اور سبھی حضرات غم کی تصویر بنے بیٹھے رہے کہ

یوں تو اس جلوہ گہہِ حسن میں کیا کیا دیکھا 

جب تجھے دیکھ چکے کوئی نہ تجھ سا دیکھا 

تقریبا سوا چار بجے نعش مبارک کو جامعہ لے جانے کے لیے اٹھایا، نہ چاہتے ہوئے بھی اچھے خاصے لوگ جمع ہوئے، جنازہ اٹھا اور آنسو نکلے، کندھوں پر سوار یہ دولہا اب پھر اسی جامعہ کی طرف رواں دواں تھا جس کی تعمیر و ترقی کے پیچھے اس کے ہزاروں دن اور سینکڑوں راتیں  کھپی تھیں، جس کے لیے وہ ہر ہر لمحہ گَلا، گُھلا اور پگھلا تھا، جنازہ جامعہ کے گیٹ پر پہنچا تو طلبہ نے ہاتھوں ہاتھ نہیں دلوں دل لیا، اور تجوید کے اِس دُلارے کو،  قرات کے اس پیارے کو،  جامعہ کے اس دیوانے کو دارالسنہ کے نچلے منزلے پر زیارتِ عام کے واسطے رکھا گیا، لوگ آتے گئے اور زیارت کرکر کے آنکھیں سینکتے رہے، بڑے بھی آئے اور چھوٹے بھی ، طلبہ بھی آئے اور اساتذہ بھی، شیوخ بھی آئے اور طفل مکتب بھی، جس نے سنا دوڑا بھاگا ہانپتا کانپتا حاضر ہوا، مغرب تک کا اچھا خاصا وقت چشم زدن میں گذرگیا، اذان مغرب سے پہلے بدقت تمام با دل ناخواستہ زائرین کو بھیجا، نکالا بلکہ کھدیڑا گیا، ہر آنے والا کہہ رہا تھا کہ میں ان کا خاص تھا، شکستہ دلوں کو کون سمجھائے اور کیوں کر سمجھائے کہ یہاں لیٹے شخص کے نزدیک سبھی خاص تھے، یہ جو خواص اور خواص الخواص بیٹھے ہیں سب عدیم ہاشمی کی زبانی کہہ سکتے ہیں کہ 

غم کے ہر اک رنگ سے مجھ کو شناسا کرگیا 

وہ مرا محسن مجھے پتھر سے ہیرا کرگیا

آخری الوداعی سفر 

مغرب پڑھتے ہی جامعہ کے طویل و عریض احاطے میں ہجوم لپکا، استاد محترم مفتی محمود صاحب بارڈولی زید مجدہ نے مائک پکڑا اور اپنے مخصوص انداز میں مجمع کی رہبری فرمانے لگے،گاڑیاں جامعہ کے باہر تھیں اور لوگ اندر، صفیں لگ گئیں، بڑے قاری صاحب کے جلیل القدر شاگرد، جامعہ کے صدر مفتی حضرت اقدس مفتی عباس صاحب بسم اللہ دامت برکاتہم تشریف لائے اور نماز شروع ہوئی، ہزاروں بندگانِ خدا و عاشقان دیدہ و نا دیدہ نے ہاتھ اٹھائے اور پلکیں جھکائیں، وہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ ان پلکوں کے پیچھے سے کتنے آنسو گرے، السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہی مجمع اپنے حضرت کی طرف لپکا، اور نگلیوں پر نہیں سچ پوچھو تو دل پر اٹھالیا، کاش! کسی نے سنا ہوتا تو جامعہ کے در و بام کو روتے ہوئے سنتا! کاش! کسی نے دیکھا ہوتا تو مسجد کو دیکھتا جو مینار والے دو ہاتھ پھیلا کر کہہ رہی تھی کہ میرے عاشق کو کہاں لیے جارہے ہو، مجمع دروازے کی طرف حضرت کو لے جارہا تھا اور حضرت کی درسگاہ کہہ رہی تھی کہ او دیوانو! میرے دیوانے کو کہاں لیے جارہے ہو! پر یہاں کون کسی کی سنتا ہے، مجمع ٹوٹا پھوٹا اور تڑپا جارہا ہے، ہرکوئی جنازے کو ہاتھ لگانے کے لیے مرا جارہا ہے، 

عجب ساعتِ رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے 

شہر کا شہر مجھے رختِ سفر لگتا ہے

ذکر و اذکار کی خاموش صداؤں، اہل دل کی بے ترتیب ہوتی سانسوں اور دیوانوں کی ''ہٹو بچو '' کی ہنگامہ خیز آواز کے بیچ جنازہ جامعہ سے نکل ہی گیا اور ایک شخص وفا داری کی انمٹ تاریخ نقش کرگیا، وہ بہت سالوں پہلے بہت دور سے آیا تھا، بہار کے پسماندہ علاقے سے چل کر مرولی کے چوراہے پر سالوں پہلے ایک سیاہ زلفوں والا ہٹا کٹا نوجوان تنِ تنہا آیا تھا آج ہزاروں کے مجمع میں،  لاکھوں کی نگاہوں کے سامنے سفید ریش و منور زلفیں لیے اب جو نحیف و نزار مرد درویش جارہا ہے وہی تو ہے وفا کی تاریخ رقم کرنے والا، پوچھو تو اِس سے ذرا کہ جوانی کہاں بِتائی! معلوم تو کرو لوگو! کہ یہ سیاہ زلفیں کس غم میں  سفید ہوگئیں! آؤ! تو اس سے دریافت کریں کہ صحت مند جوانی کیسے گَل پگھل گئی! ہاں! ہاں! تحقیق کرلو کہ اس کے جسم کا ایک ایک عضو، اس کا دل، دماغ، زبان، آنکھیں، ہاتھ پاؤں، سانسیں دھڑکنیں، اس کا سب کچھ اسی جامعہ میں رہ کر قران پاک کے پیچھے فنا کے گھاٹ اتر گیا اور سچ پوچھیے تو قبولیت سے سرفراز ہوکر زندۂ جاوید ہوگیا، قرآن کا عاشق دلوں میں زندہ ہوتا ہے، جنازہ اٹھا تو لوگوں نے کہا کہ عاشق کا جنازہ اٹھا، عاشقوں نے کہا معشوق کا جنازہ اٹھا اور خود معشوق نے کہا کہ رضائے الہی کا پروانہ لیے میرا دیوانہ اٹھا ۔

گرتے پڑتے دیوانوں کا ہجوم ڈابھیل قبرستان کے بیرونی احاطے میں پہنچا، اللہ جزائے خیر دے گاؤں کے نوجوانوں کو! نہایت معقول انتظام کر رکھا تھا،تدفین ہوئی اور خادمِ خاص قاری اسحاق صاحب نے بلکتے ہوئے سورۂ بقرہ کا اول و آخر پڑھا اور وفا کیش مردِ درویش استاذنا المکرم حضرت اقدس مفتی عباس صاحب مدظلہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، شور یکدم سا تھم گیا، سانسوں کی آمدورفت سنائی دینے لگی، دھڑکنوں کی ہلچل کان میں پڑنے لگی، آنسووں کے قطرے ٹپ ٹپ گرنے لگے، سسکیاں آئیں، ہچکیاں بندھیں اور لو جی مجمع بے قرار ہوگیاتڑپ گیا، مچل گیا، استاد مانگ رہے ہیں کہ یا اللہ! اس بندے نے تیرے کلام پاک کی خدمت میں اپنے آپ کو فنا کردیا تو اس کی خدمات جلیلہ کو قبول فرما،  اس کے وسیلے سے ہم گنہگاروں کو قبول فرما، ان کے جانے کے بعد ہمیں ان کی خیر سے محروم نہ فرما،ان کے وجودِ مسعود کے ذریعے جن فتنوں سے تو نے ہم کو بچایا تھا آئندہ بھی بچاکر رکھیو! استاذ روتے اور رلاتے رہے، مجمع بے خود ہوکر آمین آمین کہتا رہا، دعا ختم ہوئی اور دور دراز سے آئے ہوئے لوگ مٹی سے ہاتھ جھاڑ کر کفِ افسوس و حسرت مَلتے ہوئے نکلنے لگے، راقم الحروف بھی جامعہ آگیا، دیکھتا ہوں تو وہی در و بام، وہی مسجد، وہی مینارے، وہی دارالاقامہ،وہی حجرے، وہی درسگاہیں مگر کوئی تو ہے جو آج یہاں سے ایسے نکلا کہ پھر کبھی نہیں آئے گا

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا

 اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا 

تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے

ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوں گے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے