حضرت نے اللہ الصمد کا معنی: ”نراسترک“لکھا ہوا تھا
جو مجھے سمجھ نہ آیا۔ میں بڑا بےچین ہو گیا، پھر مجھے خیال آیا جیل میں ہندو پنڈت بھی قید ہے اس سے نراسترک کا معنی پوچھتا ہوں
حضرت عطاءاللہ شاہ بخاری لکھتے ہیں کہ میں اس پنڈت کے پاس گیا، اس ساری بات کی اور کہا کہ نراسترک کے کیا معنی ہیں؟ میرا پوچھنا تھا کہ پنڈت وجد میں آ کر جھومنے لگا۔ میں کافی پریشان ہو گیا کہ میں نے معنی پوچھا مگر اسے دیکھو کیا ہو گیا۔ کافی دیر کے بعد جب وہ اپنی کیفیت میں واپس آیا تو میں نے اس سے کہا کہ اللہ کے بندے! میں نے تو نراسترک کا معنی پوچھا اور تو وجد میں آگیا، ایسا کیا ہے؟
پنڈت نے جواب دیا سن سکے گا؟
میں نے جواب دیا ہاں کیوں نہیں!
پنڈت بولا تو پھر سن!
”نراسترک“سنسکرت زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہیں:
وہ جس کا کام کوئی روک نہیں سکتا اور اگر وہ نہ چاہے تو کسی کا کام ہو نہیں سکتا۔۔۔۔اللہ الصمد
شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ بس اس کے بعد مجھے کوئی ہوش نہ تھا، پتہ نہیں کب تک میری یہ کیفیت رہی۔
پوری سورت پیش ہے، مع ترجمہ و تفسیر
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ(۱)اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ(۲)لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْۙ(۳)وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۠(۴).
آپ کہہ دیجیے : وہ اللہ ایک ہے ،اللہ بے نیاز ہے ،نہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا، اور نہ کوئی اس کے برابر ہے
آسان تفسیر: اس سورہ میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے عقیدہ کو ایسی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے کہ مشرکانہ افکار کی تمام بنیادیں کٹ جائیں ، دنیا کی بہت سی قومیں خدا کو ایک مانتی ہیں ؛ لیکن وہ کسی دوسری جہت سے شرک میں مبتلا ہوجاتی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں شرک کی تمام صورتوں کی نفی کردی ہے ، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب نے اس کی بڑی خوب وضاحت کی ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
(۱ )
کبھی تعداد میں شرک کیا جاتا ہے ، یعنی ایک کی بجائے دو ، تین یا بہت سے خدا مانےجاتے ہیں ، جیسے ہمارے ہندو بھائیوں کے یہاں ہزاروں معبود ہیں ، ’احد ‘ کے لفظ نے اس کی نفی کردی کہ خدا ایک ہی ہوسکتا ہے ، ایک سے زیادہ نہیں ۔
(۲ )
کبھی منصب و مرتبہ میں شرک ہوتا ہے ، جیسے اللہ کے ساتھ ساتھ کسی اور کو رزق کا دیوتا ، کسی کو علم کی دیوی ، کسی کو زندگی اور موت کا مالک سمجھ لیا جائے ، یعنی اللہ تعالیٰ کی جو خصوصی صفات ہیں ، ان میں دوسروں کو شریک ٹھہرالیا جائے ، " صمد " کے لفظ سے اس کی تردیدہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کام کے انجام دینے میں کسی شریک ومددگار کی ضرورت نہیں ، وہ بے نیاز اور اپنے آپ میں کافی ہیں ۔
(۳ )
کبھی شرک اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ خدا کے لئے کنبہ مان لیا جاتاہے ، جیسے : خدا کا بیٹا ، خدا کا باپ ، خدا کی بیوی ، اورتصور کیا جاتا ہے کہ جب یہ خدا کا رشتہ دار ہے تو خدائی اس میں بھی ہے --- " لم یلد ولم یولد" کہہ کر اس کی جڑ کاٹ دی گئی کہ نہ خدا کی کوئی اولاد ہے اور نہ خدا خود کسی کی اولاد ہے ۔
(۴ )
شرک کا چوتھا سبب یہ ہے کہ بعض قومیں شخصیتوں کے بارے میں یہ فرض کرلیتی ہیں کہ وہ ان کے کام کر سکتے ہیں اورخدا پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ---’ لم یکن لہ کفواً أحد ‘کہہ کر اس کا رد کردیا گیا کہ کوئی اللہ کے برابر اور ہمسر ہے ہی نہیں ، جو اس پر اثر انداز ہوسکے ۔ ( دیکھئے : تفسیر عزیزی ، پارہ عم :۶۸۱ )
غرض کہ یہ سورہ اس بات کوبے غبار کرتی ہے کہ نہ ذات کے اعتبار سے اللہ کا کوئی شریک ہے اور نہ صفات واختیارات کے اعتبار سے --- اس سورہ میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت " صمد " بیان کی گئی ہے ، اُردو میں اس کا ترجمہ بے نیاز سے کیا جاتا ہے ، اس سے دراصل وہ ذات مراد ہے جو کسی کی محتاج نہ ہو اور سب اس کے محتاج ہوں ۔ (دیکھئے : تفسیر قرطبی : ۰ ۲ ۵ ۴ ۲ )
( سوانح و افکار، عطا اللّٰہ شاہ بخاری )
منقول
1 تبصرے
اللہ اکبر
جواب دیںحذف کریں