Ticker

6/recent/ticker-posts

طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد افغانستان کے حالات

 آج تقریباً دو ڈھائی سال بعد شادی کی ایک تقریب میں ایک افغانی دوست سے ملاقات ہوگئی جہاں ان سے کافی تفصیلی بات کرنے کا موقع ملا۔ کیونکہ یہ باتیں  سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی ان سے اجازت نہیں لی  تھی اس لئے ان کا نام ظاہر نہیں کیا جارہا ہے۔ 

اشرف غنی حکومت میں ان کے ماموں وزارت میں تھے غالباً اسی وجہ سے وہ خود بھی طالبان کے زبردست مخالف تھے۔ میں نے پوچھا کیا طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد افغانستان جانا ہوا ہے، انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ پہلے ہی کافی عرصہ وہاں گزارکر واپس آئے ہیں۔ یہ پوچھنے پر کہ اب کیسے حالات ہیں انہوں نے بتایا کہ ناقابل یقین امن ہے۔ بقول ان کے: ’پہلےچھ بجے کے بعد گھر سے نکلنا اغوا  برائے تاوان کو دعوت دینے کے مترادف تھا مگر اب حالت یہ ہے کہ کسی بھی وقت کہیں بھی بلا خوف گھومیں نہ کوئی خطرہ ہے نہ کوئی آپ سے سوال کرتا ہے۔ پولیس بالکل نظر نہیں آتی۔ کہیں کہیں امر بالمعروف والنهي عن المنكر کی گاڑی گشت کرتی نظر آجاتی ہے۔ خود وزرا بغیر کسی سکیورٹی کے سڑکوں پر چلتے پھرتے مل جاتے ہیں۔‘

مگر کیا انہیں داڑھی نہ ہونے پر بھی کسی نے نہیں ٹوکا؟ دوست کے مطابق: ’میں اسی حال میں ہر جگہ گیا اور مسجد میں بغیر ٹوپی کے نماز پڑھی۔ سر نہ ڈھکنے پر عام نمازیوں نے ضرور اعتراض کیا مگر کسی حکومتی اہلکار نے کوئی سوال نہیں کیا۔‘

یہ پوچھنے پر کہ انہوں نے  مزیدکیا تبدیلی محسوس کی؟ انہوں نے بتایا: ’رشوت یا سفارش کا مکمل صفایا ہوچکا۔ خواہ کوئی امریرالمومنین کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو قانون کی خلاف ورزی کرنے پر دھرلیا جاتا ہے اور قانون کے مطابق اسے سزا دی جاتی ہے۔ قرآن کے مطابق فیصلے ہوتے  ہیں اور عدالت میں کسی کی کوئی رعایت نہیں کی جاتی۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’ سابقہ حکومت میں زمینوں پر ناجائز قبضہ عام بت تھی۔ مگر اب تمام ایسی زمینیں واپس لے لی گئی ہیں اور تمام تجاوزات کو مسمار کرکے راستے صاف کردئے گئے ہیں۔ سابقہ حکومت میں ایک نہایت با اثر مولوی تھا۔ لوگ اسے مافیا کہتے ہیں۔ اس نے کئی ایکڑ ناجائز زمین پر ایک بہت بڑا ہسپتال اور مدرسہ تعمیر کیا تھا۔ اس تک کو عام قانون کے مطابق دس دن کا نوٹس دیا گیا کہ جو تمہارا سامان ہے نکال لو کیونکہ ناجائز جگہ پر تعمیر کئے جانے کی وجہ سے ہسپتال اور مدرسہ دونوں مسمار کردئے جائیں گے۔ مولوی نے کہا کہ دونوں عمارتیں عوامی فلاح کے لئے ہیں۔ مگر اس سے کہدیا گیا کہ ناجائز طریقے سے لی گئی جگہ پر یہ عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں لہٰذا انہیں لازماً مسمار کیا جائے گا اور یہی ہوا۔ دس دن بعد دونوں عمارتوں کو توڑ کر راستہ صاف کردیا گیا۔‘

اس دوست کے مطابق بہت سے تعمیری کام بھی جاری ہیں جو اس لحاظ سے حیرتناک ہیں کہ کسی غیر ملکی امدا اور قرض کے بغیر خود اپنے وسائل میں رہتے ہوئے یہ کام کئے جارہے ہیں۔‘

تو کیا اب وہ طالبان کی حمایت کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’میں تو حق بات بتارہا ہوں۔ البتہ تعلیم نسواں پر لوگوں کو بہت تشویش ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ اس پر کام ہورہا ہے اور لڑکیوں کے کالج دوبارہ جلد کھول دئے جائیں گے۔ مگر کچھ پتہ نہیں کہ یہ کام کب ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں دوسال لگیں گے کیونکہ وہ نیا نصاب تیار کررہے ہیں۔ بہرحال اس پر سب کو تشویش ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ آٹے سمیت بہت سی اشیاء پاکستان سے زیادہ سستی ہیں اور ملک کی معیشت بہت سے پڑوسی ممالک سے زیادہ مضبوط ہے۔ موجودہ تبدیلیوں کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا: ’پہلے میں افغانستان جاتا تھا تو حکومت کے لوگ مجھے جہاز میں آکر رسیو کرتے تھے اور بغیر لائن میں لگے میں وی آئی پی انداز میں ایرپورٹ سے باہر نکلتا تھا۔ مگر اس مرتبہ لائن میں لگنا بہت اچھا لگا۔ کیونکہ ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طرح پیش آیا جارہا تھا۔‘

غزالی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے